اہم خبریں

clean-5

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

 

ایم کیو ایم پاکستان بلا تفریق رنگ و نسل خدمت پر یقین رکھتی ہے۔

 ہم نے اپنے روایتی حلقوں سے غیر مہاجر امیدوار وں کو ووٹ دے کر کامیاب کیا۔

نام نہاد قومی جماعتوں نے آج تک اپنے علاقوں سے کسی مہاجر امیدوار کو کامیاب نہیں کرایا۔سندھ میں مہاجروں کے سیاسی و سماجی حقوق غصب کئے جارہے ہیں۔

مہاجروں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔سرکاری ملازمتوں کے دروازے مہاجروں پر بند کردیئے گئے۔

کالجز اور یونیورسٹیوں میں مہاجر طلبا کے لئے داخلے کا حصول محال کردیا گیا ہے۔مختلف بہانوں سے کاروباری طبقے کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

وفاقی محتسب اعلیٰ کا دفتر دور دراز تحصیل شجاع آباد میں منتقل کرنے کی تجویز شہریوں پر ظلم کے مترادف ہے۔

سول اسپتال کے شعبہ حادثات کو ڈی ایچ کیو اسپتال منتقلی کی مذمت کرتے ہیں۔

 بے مثال اتحاد اور نظم و ضبط سے نسل پرست سندھ حکومت کی سازشوں کو ناکام بنادیں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان آئندہ بلدیاتی انتخابات میں مہاجر عوام کی حمایت سے بھرپور کامیابی حاصل کرے گی۔

اراکین رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان مسعود محمود،ڈاکٹر ظفر کمالی،انچارج سندھ تنظیمی کمیٹی سلیم رزاق اور ڈسٹرکٹ انچارج خالد تبسم کا بلدیہ کمپلیکس پر منعقدہ جنرل ورکز اجلاس میں ذمہ داران و کارکنان سے خطاب۔رکن سندھ تنظیمی کمیٹی محمد علی شاہ، جوائنٹ ڈسٹرکٹ انچارجز و اراکین ڈسٹرکٹ کمیٹی،لیبر ڈویژن(یو ایل ایف) کے جوائنٹ سیکریٹری انصار احمد، رکن لیبر ڈویژن(یو ایل ایف)صادق حسین منصوری،اے پی ایم ایس او، لیگل ایڈ کمیٹی،ٹان و یوسیز کے ذمہ داران و کارکنان، ایلڈرز ونگ اور شعبہ خواتین سمیت تمام شعبہ جات کے ذمہ داران و کارکنان کی شرکت۔

میرپورخاص۔۔۔09نومبر2021

                        ایم کیو ایم پاکستان میرپورخاص ڈسٹرکٹ کے تحت بلدیہ کمپلیکس پرمنعقدہ جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رکن رابطہ کمیٹی مسعود محمود نے نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان تعصب کے بجائے بلاتفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت پر یقین رکھتی ہے جس کا واضح ثبوت ایم کیوایم پاکستان کے روایتی حلقوں سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے غیر مہاجر امیدواروں کا انتخاب ہے۔ایم کیو ایم نے ملک میں وڈیرانہ، جاگیردارانہ نظام اور موروثی سیاست کے خاتمے کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا اور سیاست میں غیرمتعصبانہ اور وسیع القلبی کے کلچر کو فروغ دیا لیکن ملک کی نام نہاد قومی جماعتوں نے آج تک اپنے علاقوں سے کسی مہاجر امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔سندھ میں مہاجروں کے سیاسی و سماجی حقوق غصب کرکے پیپلز پارٹی کی نسل پرست حکومت نے عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ مہاجر نوجوانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہیں اور مختلف بہانوں سے کاروباری طبقہ کو ہراساں کرکے ان کا کاروبار تباہ کیا جارہا ہے۔بے مثال اتحاد اور نظم و ضبط کی مدد سے نسل پرست سندھ حکومت کی سازشوں کو ناکام بنادیں گے۔آئندہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان فقیدالمثال کامیابی حاصل کرے گی۔ڈاکٹر ظفر کمالی نے کہا کہ شہر سے دوردراز تحصیل شجاع آباد میں وفاقی محتسب اعلیٰ کے دفتر کے لئے جگہ تجویز کرنا شہریوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ میرپورخاص کے لاکھوں عوام وفاقی محکموں کے خلاف اپنی جائز شکایات کے ازالہ کے لئے میلوں دور دوسری تحصیل جانے پر مجبور ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی محتسب کے دفتر کو میرپورخاص شہر میں قائم کیا جائے۔سلیم رزاق نے کہا کہ سول اسپتال کا شعبہ حادثات ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ کارکنان آپس میں اتحاد قائم رکھیں اور نظم ضبط کی پابندی کریں۔ اجلاس سے خالد تبسم نے بھی خطاب کیا۔اس موقع رکن سندھ تنظیمی کمیٹی محمد علی شاہ، جوائنٹ ڈسٹرکٹ انچارجز آفاق احمد خان، سلیم میمن و اراکین ڈسٹرکٹ کمیٹی،لیبر ڈویژن(یو ایل ایف) کے جوائنٹ سیکریٹری انصار احمد، رکن لیبر ڈویژن(یو ایل ایف)صادق حسین منصوری،اے پی ایم ایس او، لیگل ایڈ کمیٹی،ٹان و یوسیز کے ذمہ داران و کارکنان، ایلڈرز ونگ اور شعبہ خواتین سمیت تمام شعبہ جات کے ذمہ داران و کارکنان نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

سانحہ تیزگام کو دوسال سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود ضلعی انتظامیہ تاحال آٹھ لاپتہ مسافروں (جن کے عدالتی حکم پر میونسپل کمیٹی ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرچکی ہے) کو ہیئرشپ اور دیگر دستاویزات جاری نہ کرسکی، متعلقہ مختیارکاروں کو یاددہانی کے نوٹسز ملنے کے باوجود یہ غمزدہ اور بےبس خاندان ہیئرشپ کے لیے سرکاری دفاتر کے مسلسل چکر کاٹنے پر مجبور، سرکاری افسران کی ظالمانہ بےحسی اور لاپرواہی نے دوسال سے اپنے پیاروں کے لیے تڑپنے والے لواحقین کو شدید اذیت اور کرب میں زندہ درگور کردیا۔ لواحقین و ورثاء کا ایکبار پھر رکن سندھ اسمبلی سید ذوالفقار علی شاہ سے دستاویزات کی فوری تیاری اور معاوضے کی رقم کے اجراء میں مدد کا مطالبہ۔ واضح رہے کہ سانحہ کو دو سال سے زائدکا عرصہ بیت جانے کے باوجود میرپورخاص کے تاحال آٹھ لاپتہ افراد کی زندگی اور موت کا کوئی حتمی سراغ نہ ملنے اور تمام سراغ رساں ادارے بیانات اور شواہد اکٹھا کرنے کے باوجود مسافروں کا پتہ نہیں چلا سکے تھے۔ عدالتی حکم پر ان لاپتہ مسافروں کو مقامی میونسپل کمیٹی نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کیے تاکہ انکو معاوضے کی رقم مل سکے۔ عادل ، یاسر علی، سیف الرحمن ، جان محمد ، اورنگزیب عرف خرم ، محمد اقبال ، اعجاز احمد میمن اور محمد جاوید کے غمزدہ لواحقین کا کہنا ہے کہ ان کے پیاروں کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ پتہ نہیں چل سکا لیکن انکے شب و روز کس اذیت میں گزر رہے ہیں اسکا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے، ضلعی انتظامیہ ہیئرشپ و دیگر دستاویزات کے لیے ہماری فوری مدد کرنے کی بجائے ہمیں مزید نہ الجھائے۔

 مصر میں شوہر نے اپنی بیوی کو بغیر میک اپ کے دیکھ کر طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا۔

غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مصر میں شوہر نے فیس بک پر دوستی کے بعد خاتون سے شادی کی تاہم شادی کے ایک ماہ تک بیوی کو بغیر میک اپ کے دیکھ کر اہلیہ کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق مصری شہری نے اہلیہ کو طلاق دینے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کردی۔

مصری شخص کا کہنا تھا کہ میں شادی کے بعد حیران رہ گیا کیونکہ میری بیوی ویسی نہیں لگی جس سے میں شادی سے پہلے ملا تھا۔اس نے مزید کہا کہ مجھےمیری بیوی نے دھوکا دیا ہے کیونکہ وہ شادی سے پہلے میک اپ کرتی تھی لیکن شادی کے بعد میں نے اس کا اصلی چہرہ بغیر میک اپ کے دیکھا وہ الگ نظر آتی ہے۔شوہر نے عدالت کو بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو برداشت کرنے کی کوشش کی لیکن شادی کے ایک ماہ بعد تنگ آکر اس نے طلاق کے لیے درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں۔سن 2016 میں ایک شخص نے شادی کے چند دنوں بعد ہی اپنی اہلیہ کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا تھا، اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اہلیہ نے کاسمیٹکس اور جعلی پلکیں پہن کر اسے دھوکا دیا ہے۔

 ملک بھر کی طرح میرپورخاص میں بھی جشن عید میلادالنبی نہایت عقیدت اور احترام سے منایا گیا۔

ایم کیو ایم پاکستان میرپورخاص ڈسٹرکٹ کی جانب سے مختلف مقامات پر استقبالیہ کیمپس قائم کئے گئے۔
متحدہ رہنماﺅں اور یوسیز و شعبہ جات کے ذمہ داران و کارکنان نے عاشقان رسول کے جلوسوںکا پرتپاک استقبال کیا۔
شرکاءکو پھولوں کے ہار پہنائے اور گل پاشی کی گئی۔اس موقع پر لنگر اور مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔
میرپورخاص۔۔۔20اکتوبر2021
ملک بھر کی طرح میرپورخاص میں بھی جشن عید میلادالنبی نہایت عقیدت اور احترام سے منایا گیا۔اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان میرپورخاص ڈسٹرکٹ کے تحت سیٹلائیٹ ٹاﺅن،بھانسنگھ آباد،ریلوے کالونی،پوسٹ آفس چوک، غریب آباد اور مہاجر کالونی چوک پر استقبالیہ کیمپس قائم کئے گئے جبکہ ہیر آباد میں مرکزی استقبالیہ کیمپ قائم کیا گیا جہاں رکن رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر ظفر کمالی،ڈسٹرکٹ انچارج خالد تبسم، جوائنٹ ڈسٹرکٹ انچارجز آفاق احمد خان، سلیم میمن واراکین ڈسٹرکٹ کمیٹی، یوسیز کے ذمہ داران و کارکنان، اے پی ایم ایس او، لیگل ایڈ کمیٹی، میڈیکل ایڈ کمیٹی اور ایلڈرز ونگ سمیت دیگر شعبہ جات کے ذمہ داران و کارکنان نے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے جلوسوں پر گل پاشی کرکے ان کا پرتپاک استقبال کیا اور شرکاءکو ہار پہنائے۔ اس موقع پر جلوسوں کے شرکاءمیں لنگر اور مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔



میرپورخاص: رواں سال آم کی فصل میں کمی

آم اپنے رنگ خوشبو اور ذائقے کے لحاظ سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ گرمیوں (مئی، جون) کے موسم میں آموں کا سیزن شروع ہوتے ہی بازاروں میں جیسے بہار آجاتی ہے۔ پھلوں کی دکانوں اور ٹھیلوں پر مختلف اقسام کے آم انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو بازار سے گزرنے والے ہر شخص کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ آم کی ابتدا برما سے ہوئی جس کی کچھ اقسام ملایا میں بھی کاشت کی جاتی ہیں اسی لیے ملایا کو آم کا بنیادی گھر کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں آم کی کاشت مغلیہ دور حکومت میں شروع ہوئی۔ ایشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، ملائیشیا، سری لنکا، مصر، امریکہ، اسرائیل، فلوریڈا، برازیل اور ویسٹ انڈیز میں بھی آم کی کاشت کی جاتی ہے، پاکستان میں دیگر پھلوں کی پیداوار دوسرے نمبر پر ہے، مٹھاس اور بہترین ذائقے کے باعث آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ وادی مہران کی خوبصورت سرزمین اور سندھ کا چوتھا بڑا شہر میرپور خاص اپنی تہذیب‘ ثقافت اور آم کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ مختلف شعراء نے اپنی رومانوی شاعری میں بھی اسے جگہ دی ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے دوران بیماری معالج کے مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے آم استعمال کئے جبکہ اسد اللہ غالب تو آم کے شیدائی تھے۔
میرپور خاص ضلع میں آم مئی کے ابتدائی دنوں میں مارکیٹ میں آجاتا ہے اور اکتوبر کے آخر تک فروخت ہوتا ہے۔ آم کی فصل مارکیٹوں میں آنے کے بعد گوشت، سبزی، اور دیگر پھلوں کا استعمال کم ہو جاتا ہے۔ گھروں میں کچے آم سے تیار کردہ اچار، چٹنی اور مربے کا استعمال بڑھ جاتا ہے، آموں کی دو سو سے زائد اقسام ہیں مگر ان میں بیس اقسام کے آم کو تجارتی بنیاد پر کاشت کیا جاتا ہے۔ آم کی ملکی برآمدات میں سندھ کا حصہ تقریباً 40فیصد ہے۔ آموں کی مشہور اقسام میں سندھڑی، نیلم، چونسا، انور رٹول، دوسہری، بیگن پھلی، انفانسو، گلاب خاصہ، زعفران، لنگڑا، سرولی، اور دیسی آم شامل ہیں۔ جن میں سندھڑی آم اپنی مٹھاس‘ خوشبو‘ وزن اور ذائقے کے اعتبار سے آموں کا شہنشاہ کہلاتا ہے۔
سندھڑی آم کی تاریخ ایک سو سال پرانی ہے۔ جب انڈیا کے شہر مدراس سے سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں سندھڑی آم کے پودے منگوائے گئے اور سابق وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے والد اور سابقہ ضلع ناظمہ ڈاکٹر صغریٰ جونیجو کے دادا جناب دین محمدخان جونیجو نے اپنے فارم پر اس کی کاشت کی اور اپنے گاؤں سندھڑی سے محبت کے حوالے سے اس کا نام سندھڑی تجویز کیا اس طرح وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آم کی یہ جنس اس علاقے کی شناخت بن گئی ۔
   تین سو سترایکڑ اراضی پر سندھ ہارٹیکلچر انسٹی ٹیوٹ میرپور خاص نے مختلف اقسام کے آم پر تحقیق اور پیوند کاری کر کے 125 سے زائد نئی اقسام مارکیٹ میں متعارف کرائی ہیں۔ آم کی دو اقسام ہوتی ہیں جنہیں قلمی اور دوسرے کو دیسی کہا جاتا ہے قلمی آموں میں بھورا، سندھڑی، کالا سندھڑی، بیگن پھلی، دوسہری، الفانسو، ثمر، بہشت، طوطا پری، سبز، انور رٹول، چونسہ، دل آرام، سرولی، ثریا، پونی، حبشی سرولی، لنگڑا، کلکٹر، بادامی فجری، نیلم، بھرگڑی، سفید الماس، زہرہ، شام سندر، سیاہ مائل، زعفران، جبل پوری، جاگیردار، شہنشاہ، انمول اور دیگر شامل ہیں۔ جب کہ دیسی آم میں پتاشہ، لڈو، گلاب جامن، سفید گولا، سبز گولا اور سندوری وغیرہ شامل ہیں۔ قلمی آم دیسی آم کے مقابلے میں بڑے خوبصورت اور ذائقہ دار ہوتے ہیں۔ میر پور خاص میں آموں کی بہترین پیداوار حاصل کرنے والے کا چیلو فارم، نواز آباد فارم، اسد جونیجو فارم، بھگیو فارم، گل محمد رند فارم، جاوید جونیجو فارم، سید عنایت علی شاہ فارم، مصری فارم، گبول فارم، لغاری فارم اور بھرگڑی فارم شامل ہیں ان فارمز کے کاشتکاروں نے زراعت اور آموں کی نئی اقسام دریافت کرنے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ میرپورخاص ضلع میں ہر سال ماہ جون میں آموں کی نمائش کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ سلسلہ 1965ء سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔میرپورخاص ضلع میں 12140 ہیکٹر رقبے پر آموں کے باغات تھے تاہم 2011ء میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب سے آموں کے باغات بھی شدید متاثر ہوئے ہیں ۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ میرپورخاص ناراکینال کے ٹیل میں واقع ہے اس لئے سال کے آٹھ مہینے یہاں پانی کی قلت رہتی ہے جس کی وجہ سے فصلوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور رواں سال بھی پانی کی قلت کے باعث آموں کی پیدوار میں کمی کا سامناہے۔

ہندی ناول "مائی"مصنفہ گیتانجلی شری ، ترجمہ: بشیر عنوان تبصرہ:اشتیاق خان


ماں کے موضوع کو دنیا کے مختلف ادیبوں نے برتا ہے ۔خواہ روسی ادیب گورکی ہوں ،فرانس کے موپاساں،یا پاکستان کے قدرت اللہ شہاب ۔ ماں کے موضوع پر ان کی تحریریں ادب کا شہ پارہ ہیں ۔
ہندوستان کی ادیبہ گیتانجلی شری نے بھی ماں کو "مائی"کے عنوان سے اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے ۔یہ ناول ہندی ادب کے شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے، جس نے ہندی اشاعت کے دس سال بعد انگریزی،فرانسیسی اور کوریائی زبانوں میں ترجمہ ہو کر چہار جانب سے تحسین حاصل کی ۔ مصنفہ کو اس ناول پر "اندو شرما"ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔
ڈاکٹر آصف فرخی نے اس ناول کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کا اردو ترجمہ کہنہ مشق ادیب و مترجم بشیر عنوان سے کروا کر ادارے "شہرزاد"کے تحت شائع کیا ہے۔اس ناول کا دیباچہ جناب انتظار حسین نے لکھا ہے ۔یہ ناول بظاہر سیدھے سادے ہندو گھرانے کی کہانی ہے جو ایک مختصر پلاٹ پر مبنی ہے ۔اس کہانی میں قابلِ ذکر چھ کردار ہیں ۔ دادا،دادی ان کا بیٹا بابو ،ان کی بہو مائی،پوتا سبود ھ اور پوتی سنینا۔دیگرکردار جگنو کی طرح جھلک دکھا کر غائب ہوجاتے ہیں ،سنیناکے علاوہ کوئی کردار تادیر نہیں رہتا ۔رہی مائی ،تو سارا ناول اس ہی کے گرد گھومتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی تفصیلات کی مدد سے ہندوستانی معاشرے کی پیچیدہ پرتوں کو جس خوبی اور سادگی سے بیان کیا ہے اس سے مصنفہ کی زبان و بیان پر ماہرانہ دسترس کا پتا چلتا ہے ۔
اس تہذیب نے جہاں مسلم تمدن سے اثرات لئے ہیں وہیں اپنا رنگ مسلم سماج پر بھی ڈالا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کہانی ہمیں اپنی اپنی سی لگتی ہے۔مشرقی معاشرے میں ماں ایثار و قربانی کی علامت ہے ۔شادی ہوکر نئے گھر میں داخل ہونے کے بعد جس قربانی کا مظاہرہ "مائی" کرتی ہے یہ ہندو ستانی سماج میں کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے مگر مصنفہ نے اس عام واقعے کواس خوبی سے برتا ہے کہ وہ ہندوستانی تہذ یب کا نمائندہ کردار بن کر سامنے آتا ہے ۔
ارتھ شاستر میں چانکیہ کوتلیہ لکھتا ہے کہ " اغیار کو زیر کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں تو اپنی بیٹیاں انہیں بیاہ دی جائیں ۔ اغیار کی بیٹیوں سے بیاہ کرنے سے اجتناب کیا جائے"۔ اس فلسفے کے پیچھے غالباً یہ خیال کارفرما ہے کہ آئندہ نسل کی تربیت چونکہ ماں کے مرہونِ منت ہوتی ہے لہٰذا ایک نسل کے وقفے کے بعد غالب مغلوب ہوجائے گا ۔ہندوستان کی تاریخ میں یہ عمل جگہ جگہ نظر آتا ہے ۔غالباً یہی تاریخی جبر ہے جس سبب سے ہندستانی معاشرے میں بیٹیوں کے والدین نہ صرف رشتے کی تلاش بلکہ لڑکے والوں کے مطالبات بھی پورے کرتے ہیں ۔جہیز کے نام پر اپنی بساط سے بڑھ کر دیتے ہیں اور بیٹیوں سے تقریباً رشتہ منقطع کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہوگی کہ بیٹیوں کی شادی کے مواقعوں پر رنج و الم کا راج غالب ہوتا ہے۔
اس ناول میں یہ سب کچھ بین السطور بیان کیا گیا ہے ،اگر عام قاری اسے دوبارہ پڑھے تو ہندوستانی سماج کی یہ پیچیدہ پرتیں آشکار ہوجاتی ہیں ۔
اس سلسلے میں مترجم کے ترجمے کے فن پر دسترس کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کیونکہ اصل ناول کے ہندی رس کو برقرار رکھتے ہوئے فنی نزاکتوں کو ملحوظ رکھنا بھی آگ کا دریا عبور کرنے کے مترادف تھا۔مترجم اس بارے میں کچھ لکھ دیتے تو ترجمے سے شغف رکھنے والوں پر ترجمے کے کٹھن مراحل آشکار ہوجاتے ۔بہر حال ترجمے کی راہ پر نئے آنے والوں کے لئے یہ ترجمہ کلید کا درجہ رکھتا ہے۔

صدر پاکستان کی علالت


مہمند ایجنسی میں نیٹو کے جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے بلا اشتعال حملے کے نتیجے میں 24جوانوں کی شہادت کے بعد پاک فوج اور عوام کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا شاید بیرونی آقاؤں کے قدموں میں سجدہ ریز حکومت کو بھی اس ردعمل کی توقع نہ تھی۔میمو تنازعہ کے سامنے آنے کے بعدصرتحال مزید پیچیدہ ہوگئی جبکہ ایسا محسوس ہوا کہ بون کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکارحکومت پاکستان پر گراں گذرا ہے لیکن شاید فرشتوں کے ڈر سے انہیں ایسا کرنا پڑا۔ 14پاکستانی سفیروں کی تبدیلی اور اب صدر پاکستان کی علالت کی خبریں سن کر محسوس ہوتا ہے کہ اب گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔کچھ اخبارات نے تو ان کے متوقع استعفیٰ کے حوالے سے بھی خبریں اپ ڈیٹ کی ہیں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے ویسے مبصرین وسیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں ماہِ دسمبر بہت اہم ہے ، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔